آخرکار اوڈیگرام پہنچ گئے:
گزشتہ سال کی بات ہے کہ ہنزہ سے واپسی پر شانگلہ پاس سے ہوتے ہوئےہم سوات پہنچے اور سوات کے تفریحی اور تاریخی مقامات کا visit کیا جن میں مدین ٹراؤٹ فش فارم اورButkara کی archaeological sites تھیں۔ ہماری فہرست میں سوات کا میوزیم اور سوات سے متصل ایک تاریخی علاقہodegram بھی شامل تھا،وقت کی کمی کی وجہ سے ہم ان دونوں مقامات کا دورہ نہیں کر پائے اور آئندہ سال visit کرنے کا دلاسہ دے کر آگے بڑھ گئے۔ اس سال جب پوری دنیا covid-19 کی وبا سے متاثر تھی تو اس کا سب سے بڑا خمیازہ سیاحت کی industryکو بھگتنا پڑا جس سے بہت سارے لوگوں کا معاش جڑا ہوا تھا ۔جیسے ہی سیاحت کھلنے کی اطلاع ملی تو ایسا لگا جیسے سیاحوں کو oxygen مل گئ ہو اور سب کے سب حسین وادیوں کے نظاروں کے لیئے جوق در جوق پہاڑوں کی جانب رخ کر نے لگے تو ھم نے بھی پر تولے،کیونکہ ہم تو بلکل تیار ہی بیٹھے تھے، لہذا ہم نے عید ختم ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا اور عید کے تیسرے دن ہی علی الصبح کمراٹ جانے کے ارادے سے سفر کے لیئے روانہ ہو گئے۔اس سفر میں میرے ہمراہ میری فیملی اور میرے دوست جنید کھڑبائ کی فیملی تھی۔ جب ہم نے کمراٹ سے اپنا تفریحی سفر مکمل کیا تو میرے زہن میں گزشتہ سال کی فہرست میں سے odegram کا نام گردش کرنے لگا اور راستے میں ہی میں نے سوچا کہ چکدرہ سے40 کلو میٹر کی مسافت پر سوات واقع ہےتو کیوں نہ ہم سوات کی طرف کوچ کریں اور اپنے گزشتہ سال کےplans کو مکمل کریں تو لہذا ہم سوات کی طرف ہو لیئے اور سوات پہنچ کردریا کے کنارے ایک ہوٹل میں قیام کیا اور رات کو ہی صبح کا plan بنالیا۔plan میں ہم نے دو جگہیں شامل کیں جن میں سوات کا میوزیم اور Odegram کا visitشامل تھا۔ اگلی صبح میں نے اپنے ایک دوست جو کہHead of The Archaeological Department Peshawar University ہیں، ان سے رابطہ کیا اور سوات میوزیم کے دورے میں معاونت کی درخواست کی تو انہوں نے وہاں کے ڈائریکٹر میوزیم سے رابطہ کرکےانہیں ہمارے آنے کی اطلاع دی اور ہم سوات میوزیم جا پہنچے اور وہاں کے ڈائریکٹر میوزیم اور اسٹاف سے ملاقات کی انہوں نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میوزیم کو ہماری knowledge اور information Sharing کے لیے ہمارے ہمراہ کردیا ،انہوں نے پورے میوزیم کا بہت تفصیلی دورہ کرایا جو ہمارے لیے کافی معلوماتی اور دلچسپ رہا اس کے بعد ہم ان کا شکریہ ادا کر کے اپنی اگلی منزل کو چل دیے۔ ہماری اگلی منزل Odegram کیarchaeological sites تھیں، جو سوات شہر سے 10 سے 12 میل کی مسافت پر تھیں، Odegram کا پرانا نام(Ora) تھا، 1048 میں یہ ہندو شاہی حکومت کا دارالخلافہ تھایہ علاقہ کئی حوالوں سے تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس خطے میں اسلام کی آمد Odegram میں موجود راجہ گیرہ سے منسوب مشہور قلعے کی محمود غزنوی کی فوج کی فتح کے بعد ہوئ، یہ قلعہ میلوں میل پھیلا ہوا تھا اور دریائے سوات تک جا ملتا تھا۔ اور فتح کے بعد محمود غزنوی کی تعمیر کردہ مسجد جو راجہ گیرہ کے قلعے کی ایک باقی دیوار کے عقب میں موجود ہے، اور مسجد کے ساتھ بت مت کی عبادت گاہ کے باقیات۔ یہ سب دیکھنے کا میں شدت سے منتظر تھا۔ خیر ہم آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے مسجد کے قریب تر جا پہنچے جہاں تک روڈ ختم ہو رہا تھا اس کے بعد ہمیں پہاڑی پر پیدل چل کر اوپر جانا تھا ۔مقامی لوگوں سے قلعے کے بارے میں معلومات حاصل کرکے جب قلعے کی اونچائی کا اندازہ لگایا توہماری تو ہمت ہی جواب دے گئ اور ہم یہ سمجھ گئے کہ ہم قلعے تک نہیں جا سکیں گے۔ اس لیئے ہم نے بچوں کو کیمرہ دے کر اوپر بھیج دیاتاکہ وہ اوپر جا کر تصویریں کھینچ لیں گے اور میں نے اپنی ساری ہمت سمیٹ کر مسجد کی جانب چڑھنا شروع کردیا میرے لئے مسجد کی چڑھائی بھی بہت تھی پھر بھی میں آہستہ آہستہ چڑھتا رہا اور آخرکار مسجد تک پہنچ گیا، وہاں پہنچ کر میری مسجد کے نگہبان سے ملاقات ہوئی جو وہاں حکومت کی طرف سے مامور ہے،اور اپنی مدد آپ اس مسجد کو آباد کرنے کی کوشش میں کوشاں ہے۔ اس نے ہمارا حال احوال پوچھااورہماری دلچسپی دیکھتے ہوئے ہمیں مسجد کے صحن میں قلعے کی دیوار کے سائے میں بٹھا دیا اور مسجد کی اور اس علاقے کی تاریخ بتانا شروع کردی اس کے مطابق یہ علاقہ ہندو شاہی حکومت کا پائے تخت تھا اور یہاں راجہ گیرہ کی حکومت قائم تھی اور اس قلعے کو فتح کرنا نا ممکنات میں سے تھا۔ محمود غزنوی نے اس قلعے پر دو حملے کئے اور دونوں ہی ناکام رہے تیسری بار محمود غزنوی نے خوشحال نامی شخص کو اس مہم کی سپہ سالاری سونپی جو بعد میں پیر خوشحال غازی بابا کے نام سے مشہور ہوئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سید زادوں میں سے تھے۔ کئ دن کے محاصرے کے بعد قلعہ فتح نہیں ہو پا رہا تھا اور جب تک راجہ گیرہ کی فوج قلعے سے باہر آکرنہ لڑتی یہ قلعہ فتح کرنا نا ممکن تھا ۔ اب کسی طرح فوج کو قلعے سے باہر نکالنا تھا، لہذا پیر خوشحال نے راجہ گیرہ کی بیٹی کی مدد سے( جو ان کی شخصیت سے بہت متاثر...
Read moreضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے مغرب کی جانب 6.6 کلومیٹر کی مسافت پر اوڈیگرام کے علاقے میں واقع سلطان محمود غزنوی کی ایک ہزار سال پرانی مسجد اس وقت کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی چھت زمین سے 30 فٹ اونچی ہوا کرتی تھی۔ ماہانہ دو ہزار سے زائد سیاح آج بھی ملک کے کونے کونے سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں. تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائیں تو پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے دو نومبر بروز منگل سنہ 971ء کو سبکتگین کے ہاں غزنی میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنتِ غزنویہ کے حکمران تھے۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا تھا اور ان کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ مسلمان حکمرانوں میں سے وہ پہلے حکمران تھے جنہوں نے 'سلطان' کا لقب اختیار کیا۔ انہوں نے ہندوستان پر 17 بار حملہ کیا۔ انہی حملوں میں سے ایک اس نے راجا گیرا (جو موجودہ شمالی پاکستان کے علاقوں سوات وغیرہ کا طاقتور اور خوشحال بادشاہ شمار کیا جاتا تھا) کی سلطنت پر کیا۔ مشہور ہے کہ یہاں سلطان محمود غزنوی نے پیر خوشحال کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنا کر ایک بڑی لڑائی لڑی۔ اسی معرکے میں پیر خوشحال بڑی بے جگری سے لڑا اور بالآخر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ پیر خوشحال اب یہاں سوات میں ہی دفن ہے۔ اس معرکے میں سلطان کے دو بیٹے بھی سدھار گئے تھے اور وہ بھی سوات ہی میں مدفون ہیں۔ ایک خونریز لڑائی کے بعد راجا گیرا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ راجا کی شکست کے بعد سلطان واپس غزنی چلا گیا اور 30 اپریل 1030ء کو انتقال کر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ضلع سوات سے واپسی کے وقت یہاں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ مسجد کے باہر لگے ایک بورڈ پر مسجد کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے جس کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے مسجد کی بنیاد 49-1048 میں ڈالی تھی۔ یہ شمالی پاکستان کی سب سے پرانی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس کے احاطے سے 1984 میں ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر درج تھا کہ محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کو اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی نگرانی میں اسے تعمیر کیا تھا۔ مذکورہ کتبہ ہاتھ آنے کے بعد ہی اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے 1984 میں 'سلطان محمود غزنوی مسجد' کو دریافت کیا تھا۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے بنائی گئی اس مسجد کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر گارڈز مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیاحوں کو ایک بات کی تلقین خاص طور پر کرتے ہیں کہ آپ کو مسجد کے احاطے میں کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا ہے۔ کیوں کہ اس سے ’’نیچر ڈسٹرب‘‘ ہونے کا احتمال ہے۔ بالفاظ دیگر ایک ہزار سال پہلے جو چیز جہاں رکھی گئی تھی، اگر اسے وہاں سے اٹھایا گیا، تو اس کی فطری کشش میں کمی واقع ہوجائے گی۔ مسجد تعمیر کرتے وقت اس کے صحن کے عین درمیان پانی کا ایک تالاب بنایا گیا تھا جسے آج بھی اسی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُس دور میں لوگ نماز پڑھنے کی خاطر وضو اسی حوض کے پانی سے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے وقت اس جگہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو پانی کی سپلائی لائن کہلاتی ہے۔ مسجد سے بارش یا پھر وضو کے استعمال شدہ پانی کو نکالنے کا طریقہ بھی اس دور کی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔
تقریباً ایک اسکوائر فٹ نالی باقاعدہ ایک سیڑھی کی شکل میں بنائی گئی ہے، جس کی مدد سے پانی مسجد کے احاطے سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مسجد کے ہال میں ایک محراب بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ مسجد کی دیواریں عام پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ قبلہ رو کھڑے ہو کر بائیں جانب کی دیوار تیس فٹ اونچی ہے، یعنی آج کی تعمیرات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی تین منزلہ عمارت جتنی اونچی دیوار ہے۔
قبلے سے بائیں جانب محراب سے آگے ایک چھوٹا سا راستہ رہائشی کمروں کی طرف جاتا ہے۔ دراصل اس دور میں یہ مسجد مدرسے کے طور پر بھی استعمال ہوا کرتی تھی جس میں کئی طلبہ بیک وقت دینی علوم حاصل کیا کرتے تھے۔ قبلے سے دائیں جانب ایسے دو راستے اور بھی رہائشی کمروں کی طرف نکلتے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسجد میں زیرِ تعلیم طلبہ اور اساتذہ انہی کمروں میں رہائش پذیر تھے۔
مسجد میں جگہ جگہ چھوٹے کتبے لگائے گئے ہیں جن سے نوواردوں کو اچھی خاصی رہنمائی مل جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد کے احاطے میں بھی ایک کتبہ لگایا گیا ہے کہ یہاں پر کبھی اسٹوپا ہوا کرتا تھا اور بدھ مت کے پیروکار اپنی مذہبی رسوم یہاں ادا...
Read moreThe Mehmood Ghaznavi Masjid is a historic mosque located atop a mountain in Udigram, Swat. To reach the mosque, visitors follow a path inside the market, with clear signage visible from the roadside. This mosque holds significant historical importance, dating back to the time when Mahmud Ghaznavi conquered the fort of Raja Geera, the last Hindu king in Swat known for his mistreatment of Muslims. Ghaznavi, along with Ghazi Baba, emerged victorious in the war and established the mosque as a symbol of triumph.
The mosque stands as a testament to the region's rich history and cultural heritage. While previously accessible without charge, visitors are now required to purchase a ticket for 50 rupees to enter the premises. Despite this, the mosque remains a must-visit site for history enthusiasts and those interested in exploring Swat's past. The scenic views from the top of the mountain add to the mosque's allure, making it a worthwhile visit for both spiritual and historical significance. The Mehmood Ghaznavi Masjid is a notable landmark in Swat's history, reflecting the region's diverse past and...
Read more